Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”تم ماں ہو ناں اور بیٹی میں کوئی دوری نہیں ہوتی ہے معلوم کرواس سے وہ کیوں پریشان وبدحواس ہے؟ مجھ سے وہ ہچکچائے گی گھبرائے گی کہ میں باپ ہوں۔“ ان کے باریش چہرے پر نور ووقار بھری ملامت تھی۔

”میں پوچھ چکی ہوں وہ امتحانوں کی فکر میں کھل رہی ہے اس کی سہیلی کہہ رہی تھی ایک دن گھر سے باہر سہیلیوں کے ساتھ سمندر پر گزارے گی تو ٹھیک ہو جائے گی کوئی مرد ساتھ نہیں جا رہا ان کے کوئی بے پردگی نہیں ہو گی۔
“ انہوں نے وردہ کی زبانی سنی بات وثوق سے دہرادی۔

”اس لڑکی کے گھر کا ماحول دیکھا ہے اس کی والدہ سے ملی ہو کیسے لوگ ہیں جانتی ہو؟ پھر گھر سے باہر مستورات کا بغیر محرم کے جانا مناسب فعل ہے کیا؟“ انہوں نے اعتراضات کی بھرمار کردی تھی مگر عورت جب منوانے پر کوئی بات آجائے تو پھر منوا کر ہی رہتی ہے۔
(جاری ہے)

رضیہ بیٹی کی محبت می بے چین تھی نا معلوم کون کون سی دلیلوں سے خاوند کو راضی کر کے ہی مانی تھیں۔
بے شک وردہ ہی ان کو راضی کرتی رہی تھی رجاء نے خواہش ظاہر نہیں کی تھی مگر وردہ کو منع بھی نہ کیا تھا تب وہ سمجھی تھیں کہ وردہ کے اصرار میں رجاء کا اقرار بھی شامل تھا۔ خاموشی میں بھی اثبات کی رضا ہوتی ہے۔ وہ بیٹی کی پہلی خاموشی خواہش کو رد ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ سوشوہر سے ہامی لے کر ہی اٹھی تھیں لیکن نا معلوم کیا ہوا کہ دل پر ایک انجانا بوجھ سا آگیا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کیا ہوا ہے؟ رجاء پہلی بار غیروں کے ساتھ گھر سے باہر جائے گی اس کی فکر سے یا زندگی میں پہلی بار اپے جیون ساتھی کی بات کو رد کر کے اپنی منوانے کا دکھ تھا۔

وہ خاصی دیر تک ہاتھ پھیلائے دعا مانگتی رہیں اور اشکِ ندامت بہتے رہے۔

رجاء کو نماز کے لیے بیدار کر کے وہ کچن میں آکر پراٹھوں کے لیے آٹا گوندھنے لگیں ان کے خاوند کی عادت تھی وہ ناشتے میں انڈے پر اٹھے کھاتے تھے۔

رجاء نماز کے لیے بڑی مشکل سے اٹھی تھی شدید نیند سے اس کی آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں اگر اسے امی کی ناراضگی کا خوف نہ ہوتا تو وہ نماز کے لیے انا اٹھتی۔
مگر جانتی تھی بے حد محبت کرنے والی ماں نماز کے معاملے میں ازحد سخت تھیں۔ جب سے یہ سلسلہ چلا تھا وہ غیر محسوس انداز میں نماز وقرأت سے دور ہوتی جا رہی تھیں۔ رضیہ حافظ تھیں باورچی خانہ میں ناشتا بنانے کے دوران ان کی تلاوت کی خوب صورت مگر دھیمی آواز خوش بُو کی مانند گھر میں پھیلتی گویا ہر شے کو معطر کر رہی تھی۔ عام دنوں میں وہ ماں کا ہاتھ بٹایا کرتی تھی مگر آج اعصاب اتنے کشیدہ تھے کہ نماز پڑھ کر وہ دوبارہ بستر پر آکر لیٹ گئی تھی۔

وقت مقرر پر وردہ آئی تو وہ اس وقت تک ذہنی طور پر تیار ہو چکی تھی۔ تمام منفی سوچوں پر اس نے پہرے بٹھادئیے تھے۔ یہی حل اس کو بہتر لگا تھا۔ اس نے بہترین لباس زیب تن کیا تھا ہلکی سی جیولری استعمال کی تھی میک اپ کے نام پر اس کے پاس صرف کا جل اور ٹالکم پاؤڈر تھا جو اس نے استعمال کیا تھا ور امی کی ڈھیروں دعاؤں میں وہ وردہ کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔
دہلیز سے قدم باہر نکالتے ہی وہ ایک کیفیت کا شکار ہوئی تھی۔

”یہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں؟“ اس کا دل بُری طرح دھڑک اٹھا تھا۔

###

آپ آج جلدی آگئے خیر تو ہے نا؟“ صباحت فیاض کو بے وقت گھر آتے دیکھ کر گویا ہوئی تھیں۔ فیاض نے ناقدانہ انداز میں ان کی طرف دیکھا تھا۔

”کچھ کاغذات بھول گیا تھا وہ لینے آیا ہوں کہیں جانے کی تیاری ہے؟“ ان کو نک سک سے تیار دیکھ کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوئے۔

”جی……جی وہ……میں نے سوچا بھائی اور بھابی کی خیریت معلوم کر آؤں۔ بہت دنوں سے جانا نہیں ہوا بچے بھی یاد کر رہے ہیں بھابی بتا رہی تھیں۔“ فیاض کی اچانک آمد نے ان کی چوری فاش کر دی تھی۔ وہ آج نند کے آنے کا سن کر بہانہ کر کے یہاں سے جانے کا سوچ چکی تھیں۔ نندیں ان کی دونوں ہی دماغ والی تھیں۔ متمول گھرانوں میں بیاہ کر گئی تھیں ان کو ہر وہ آسائش و سہولت میسر تھی جن کی چاہہر عورت کی اولین آرزو ہوتی ہے۔
آسودہ حالی نے ان کو نازک مزاج بنا دیا تھا جو صباحت کو کچھ زیادہ ہی کھلتی تھی۔

”ایک ہفتے قبل ہی تو تم اپنے بھائی اور ان کے بچوں سے مل کر آئی ہو پھر اتنی جلدی کیا ضرورت پڑ گئی جانے کی…؟“ فیاض کے لہجے میں برہمی تھی۔“ جب کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ عامرہ آئے گی آج اس کے لیے کھانے میں خاص اہتمام کرنے کی بجائے تم گھر سے ہی غائب ہو رہی ہو؟“

”عامرہ آرہی ہے تو کون سی نئی بات ہے وہ تو آتی رہتی ہے۔
“ اپنے پروگرام کو چوپٹ ہوتے دیکھ کر وہ منہ بنا کر گویا ہوئی تھیں۔

”نئی بات تو تمہارے جانے میں بھی نہیں ہے تم بھی جاتی رہتی ہو۔“

”آپ کو میرے جانے پر کیوں اعتراض ہے؟“

”میں نے تم کو کبھی بھی کہیں آنے جانے سے منع کیا اور نہ ہی اعتراض کیا ہے کہ مگر میں یہ کبھی برداشت نہیں کروں گا کہ تم میرے گھر آنے والے مہمانوں اور میری بہنوں سے جان چھڑا کر گھر سے فرار ہو۔
“ بے حد سنجیدہ و خاموش رہنے والے فیاض صاحب کی نگاہوں سے بیگم کی حرکات و سگنات پوشیدہ نہ تھیں۔ شریک حیات کی رگ رگ سے وہ واقف تھے لیکن درگزر افہام و تفہیم ان کی شخصیت کا حصہ تھی کبھی بہت موقع پر ہی لب وا کرتے تھے۔

”واہ بھئی! یہ بھی آپ نے خوب کہی مجھ پر سارے الزام تھوپ کر خود بری الزمہ ہو گئے؟ درحقیقت آپ کو میری پرواہ ہی کب ہے آپ نے کبھی مجھے وہ مقام نہیں دیا جس کی میں حق دار تھی اس مقام پر ابھی بھی وہ عورت حکومت کر رہی ہے جو اس گھر سے نکل گئی آپ کی زندگی سے چلی گی مگر آپ کے دل سے نہ جا سکی وہ آج بھی آپ کے دل میں براجمان ہے اور ہمیشہ……“

”بکواس بند کرواپنی……“ وہ ایک دم ہی چیخ اٹھے۔

”میں سچ کہہ رہی ہوں وہ آپ کو پہلے سے زیادہ عزیز ہے اس کی خاظر آپ نے کبھی میری طرف پیار سے نہیں دیکھا کبھی مجھے نہیں سراہا میں اس سے زیادہ محبت کرتی ہوں آپ سے……اس نے آپ کو پا کر کھو دیا لیکن میں نے بڑی دعاؤں مرادوں کے بعد آپ کو پایا ہے اور پا کر بھی نہ پا سکی ہوں۔“ صباحت کے دل کا درد لبوں پر آیا تو آنکھیں جھر جھر بہنے لگی تھیں۔

”یہ کون سا وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا صباحت……!“ وہ ایک گہرا سانس لے کر نرمی سے مخاطب ہوئے مگر ان کی آنکھیں دھواں دھواں ہو رہی تھیں۔ ایک عورت ہی عورت کا دکھ بھلا سکتی ہے اپنا اسیر بنا سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ دوسری عورت پہلی عورت سے زیادہ قابل وذہین ہو اور یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ صباحت نہ تو ذہی تھیں اور نہ ہی اتنی حسین کہ وہ سب کچھ بھول کر صرف ان کے ہو جاتے اور ماضی کسی گرد کی طرح ا کے دل سے صاف ہو جاتا۔

”چلو……آؤ میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں مجھے یاد آیا عامرہ کی کال آئی تھی وہ کل آئے گی اس کے ہاں مہمان آگئے ہیں۔“ وہ ان کا بازو پکڑ کر باہر نکل گئے تھے۔ صباحت نے نہال ہو کر ان کے بازو کو مضبوطی سے تھام لیا تھا۔

###

گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو

جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو

کھلے گا ترک تعلق کے بعد باب فنا

یہ ایک آخری پردہ بھی اب اٹھا ہی دو

رُکی رُکی سی ہوا ہے تھکا تھکا ہے چاند

وفا کے دشت میں جیسے کھڑے ہیں راہی دو

عشرت جہاں ناراضگی سے مثنیٰ کی جانب دیکھ رہی تھیں جو ایک عرصہ بعد ان سے ملنے آئی تھیں اور چند منٹ حال احوال جاننے اور بتانے کے بعد جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

”پورے چھ ماہ بعد تم نے گھر میں قدم رکھاہے اب کچھ وقت بوڑھی ماں کو بھی دے دو ۔ ملازم سے کہہ کر کھانا لگوا رہی ہوں۔“ عشرت جہاں جتانے لگیں۔

”ممی! فون تو میں آپ کو کرتی رہی ہوں حالانکہ دبئی میں بے حد مصروفیات رہیں۔

”یہ کون سی نئی بات ہے سال میں ایک ماہ بھی تم اپنے شہر میں نہیں گزارتی ہو۔ دبئی، لندن، پیرس اور بھی بے شمار جگہوں پر آنا جانا رہتا ہے میں صورت دیکھنے کو ترس جاتی ہوں تمہاری……“ ان کے لہجے می ایک درد سمٹ آیا۔

”میں اسی لیے فون کرتی ہوں آپ کو کہ آپ خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔“

”آواز سننے سے میری ممتا کو قرار نہیں آتا مثنیٰ!“ اکلوتی عزیز ترین بیٹی کے لہجے میں نہ وہ تڑپ تھی اور نہ ہی وہ احساس جس کی ان کی ممتا تمنائی تھی۔ بے گانگی بھر اسردوسپاٹ لہجہ گویا جذبات و محبت سے ناواقف پتھروں کو گویائی مل گئی ہو۔ ان کے لہجے میں آہیں گھل گئیں۔

”آپ کو تو معلوم ہی ہے ممی! صفدر کی مصروفیات! جتنااِن کا کاروبار پھیلا ہوا ہے اتنا ہی ا کا حلقہ احباب وسیع ہے روز ہی کہیں نہ کہیں پاڑٹی یا فنکشن نکل آتے ہیں، ڈنر تو ہم گھر پر ہی نہیں کرتے کہ کہیں نہ کہیں مدعو ہوتے ہیں آج بھی ایک منسٹر کے ہاں پارٹی میں مدعو ہیں ہم۔“

”ٹھیک ہے بلیک کافی منگوالیں بنا شکر کے۔“ وہ بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
عشرت جہاں نے ملازمہ کو کافی لانے کا کہا اور بیٹی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ وہ گولڈن سلک کی لائٹ کام والی ساڑھی میں ملبوس تھیں۔ برگنڈی کلر تراشیدہ بال ان کے شانون پر بکھرے ہوئے تھے ہیرے کے جیولری سیٹ میں ان کے حسین چہرے پر روشنیاں بکھری تھیں۔ دونوں ہاتھوں می ان کے طلائی چوڑیاں ہوئی تھیں۔ا ن کے قریب رکھے خوب صورت پرس اور پیروں میں پہنے سینڈلز کی قیمت لاکھوں میں تھی ان کی ایک ایک شے سے امارات ظاہر تھی۔
وہ بے حد حسین تھیں اور خوش حالی ے ان کے حسن کو دو چند کر دیا تھا۔ جو عورت حسن کی دولت سے مالا مال ہو اور خوش حالی سے بھی آسودہ ہو تو زندگی میں گنگنانے لگتی ہے۔

صباحت کے رنگ روشنیاں بن کر اس کی آنکھوں میں چمکنے لگتے ہیں۔ چہرے پر مسرتوں کی کہکشاں جھلملانے لگتی ہے۔

مگر……اس کی خوب صورت آنکھوں میں رنگ تھے نہ روشنی……! صرف ایک موسم جیسے ٹھہر گیا تھا۔

اداسی کا موسم پت جھڑ کا موسم

”اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں ممی!“ ان کو دیکھتا پا کر مثنیٰ نے استفسار کیا۔

”مثنیٰ! کیوں اس قدر اُجڑی اُجڑی دکھائی دیتی ہو؟دولت ، عزت، مرتبہ ، صفدر کی بے پناہ محبت و چاہت کی تم مالک ہو وہ تمہیں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں پھر کیوں مجھے اتنی الجھی اُجڑی اور پورے جہاں سے بے زار نظر آتی ہو؟“ ملازمہ کافی دے گئی تھی عشرت جہاں اس کا چہرہ تکتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔

محبت روٹھ جائے تو زندگی کہاں آباد رہتی ہے بار ہاسعی کے بعد بھی نہیں۔

”ممی! میں آپ کے سامنے لاکھوں کی پراپرٹی بنی بیٹھی ہوں اور آپ کہتی ہیں میں اجڑی اجڑی دکھائی دے رہی ہوں؟“ اس نے گہری سانس بھر کر کہا۔ ان کے لہجے میں ایک آنچ تھی ایک پھانس تھی جو عشرت جہاں کے دل میں کھب کر رہ گئی۔ وہ آزردگی سے اس سے گویا ہوئیں۔

”تمہاری زندگی اس کافی کی طرح ہو گئی ہے کڑوی و بے ذائقہ۔

”شکر ہے خدا کا! ازندگی تو ہے نا!“ ان کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ ابھری۔

”پری آئی تھی؟“ ممی کو خاموش دیکھ کر اس نے آہستگی سے پوچھا۔

”نہیں!“ زبان کے ساتھ انہوں نے گردن بھی ہلائی۔

”کیوں……؟“ آپ معلوم کرتیں؟“ سرمیز پر رکھ کر وہ فکر مندی سے بولیں۔

”اس کی تائی اور کزن آئے ہیں آسٹریلیا سے اس وجہ سے نہیں آسکی ہے۔

”وہ آئے ہیں تو کیا ہوا؟ وہ پری کی ذمہ داری تو نہیں ہیں گھر کے دوسرے لوگ بھی تو ہیں پری پر ہی بوجھ کیوں ہے۔ آپ کل ڈرائیور کو بھیجیں۔“

”اتنی محبت کرتی ہو پری سے مگر روبرو کبھی محبت جتاتی نہیں ہو۔“ ان کا رویہ پری سے بے حد محتاط و تکلف زدہ ہوتا تھا۔

”ممی! پری میری بیٹی ہے میری روح ہے وہ…… محبت تو فقط محبت ہوتی ہے دکھانے اور جتانے کی ضرورت کہاں ہوتی ہے محبت میں۔
“ ان کے نم لہجے میں محبت کی مٹھاس کسی خوش بُو کی مانند مہک رہی تھی۔

”میں کل بلاتی ہوں پری کو اب تمہیں تو فرصت ہو گی نہیں اس کو ساتھ لے کر میں خود تمہارے پاس آجاؤں گی۔ آذر اور مہوش بھی سڈنی چلے گئے ہیں کل وہ اب جلدی آنے والے نہیں ہیں اور میرا اب تنہائی میں دم گھٹنے لگا ہے یہ درود یوار مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔“ ان کے لہجے میں تنہائیوں کی وحشت لرزے لگی تھیں۔

”نہیں……آپ وہاں پری کو مت لائیے گا۔“

”کیوں بھلا……؟“ وہ حیران ہوئیں۔

”صفدر کے مزاج کو تو جانتی ہیں نا آپ! انہوں نے پری کو کبھی پسند نہیں کیا اور میں نہیں چاہتی پری کسی کی آنکھ کا خار بنے۔“ وہ دو ٹوک انداز میں بولیں۔

”اچھا ہے اس بہانے تم بھی گھر کو گھر سمجھو گی۔ ڈرائیور کے ہاتھ ہی می

   2
0 Comments